Wasif Ali Wasif was a Pakistani teacher, writer, poet, and wali / sufi.
Khushab was born on January 15, 1929.
On January 18, 1993, he died.
Malik Muhammed Arif is his father.
Baba G Huzur is another name for Baba G Huzur.
Apni hasti se jyada apna naam na phailao
nahin to pareshan ho jaaoge.
اپنی ہستی سے زیادہ اپنا نام نہ پھیلاؤ
نہیں تو پریشان ہو جاؤ گے۔
دنیا میں سب سے آسان کام نصیحت کرنا ہے، اور سب سے مشکل کام نصیحت پر عمل کرنا ہے
Aansu qurb ka saboot hain
jab ruuh ka ruuh se vishal hota hai
to aapko aansu a jaate hain.
آنسو قرب کا ثبوت ہیں،
جب روح کا روح سے وصال ہوتا ہے
تو آپ کو آنسو آجاتے ہیں۔
Jo kisi maqsad ke liye marte hain
wo marte nahin hain aur jo be maqsad jite hain wo jite nahin hain.
جو کسی مقصد کے لئے مرتے ہیں،
وہ مرتے نہیں ہیں، اور جو بے مقصد جیتے ہیں،
وہ جیتے نہیں ہیں۔
Fani ki mohabbat fanaa paida kar degi,
baki ki mohabbat baka paida karegi.
فانی کی محبت فنا پیدا کر دے گی،
باقی کی محبت بقا پیدا کرے گی۔
Duniya ke andar sabse bada insaaf ye hai ke
ye duniya guna ke mutalashi ke liye guna deti hai,
aur fazil ke mutalashi ko fazl deti hai.
دنیا کے اندر سب سے بڑا انصاف یہ ہے کہ
یہ دنیا گناہ کے متلاشی کے لئے گناہ دیتی ہے،
اور فاضل کے متلاشی کو فضل دیتی ہے۔
Jisko sadakat aur naiki ka safar karne ki khwahish hai
wo jaan le kah ye manzoori ka elaan hai
jisko manzoor nahin kiya jata
usko ye shauk hi nahin milta.
جس کو صداقت اور نیکی کا سفر کرنے کی خواہش ہے،
وہ جان لے کہ یہ منظوری کا اعلان ہے،
جس کو منظور نہیں کیا جاتا،
اسکو یہ شوق ہی نہیں ملتا۔
Jo aadami maut se nahin nikal sakta
wo khuda se kaise nikal sakta hai.
جو آدمی موت سے نہیں نکل سکتا،
وہ خدا سے کیسے نکل سکتا ہے۔
Door ka koi makaam aisa nahin hai
jo kareeb na a sake.
دور کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جو قریب نہ آ سکے۔
حق کیا ہے، استعداد کے مطابق حاصل،
احسان کیا ہے حق سے زیادہ حاصل،
محرومی کیا ہے حق سے کم حاصل۔
Munafiq vo hai jo Islam se mohabbat kare
aur muslmanon se nafrat.
منافق وہ ہے جو اسلام سے محبت کرے اور مسلمانوں سے نفرت۔
آپ کے سانس گنتی کے مقرر ہو چُکے ہیں،
نہ کوئی حادثہ آپ کو پہلے مار سکتا ہے،
نہ کوئی حفاظت آپ کو دیر تک زندہ رکھ سکتی ہے۔
جھوٹے معاشرے میں عزت کے نام سے مشہور ہونے والا آدمی دراصل ذلت میں ہے۔
معاشرے انسان کو جنم دیتے ہیں، اور انسان معاشرے کو جنم دیتا ہے۔
ادب ہی قرآن کا حافظ ہوتا ہے، جس نے قرآن کا ادب کیا وہی اس کا حافظ ہے،
اگر ادب نہ ہو تو قرآن سینے سے صاف ہو جائے گا۔
پسندیدہ چیز سے جدائی موت ہے،
جن کی پسندیدہ چیزیں مُوت سے پرے ہیں اُن کو مرنا آسان ہے،
جن کی پسندیدہ چیزیں یہاں رہ جائیں گی، اُن کے لیے مُوت مشکل ہے۔
غصہ ایسا شیر ہے جو تمہارے مستقبل کو بکرا بنا کر کھا جاتا ہے۔
جب موت سے پہلے موت کا مقام سمجھ آ جائے تو
موت کے بعد ملنے والے انعام موت سے پہلے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔
چور ضرورت کا نام ہے بندہ اندر سے برا نہیں ہوتا،
ضرورت ہی برا کرتی ہے اور ضرورت ہی نیک کرتی ہیں ضرورت نکال دو بندہ ٹھیک۔
کسی پسندیدہ چیز کے چھن جانے یا کسی نا پسندیدہ چیز کے آ جانے کو خوف کہتے ہیں۔
اولاد کو زمانہ جدید کے مطابق تعلیم دو، تاکہ رزق کما سکیں اور دین کا علم دو تاکہ وہ برباد نہ ہو جائیں۔
Hazrat Ali Quotes
وجود گھوڑا ہے، اور روح اسکی سوار، گھوڑا لاغر نہیں ہونا چاہیے کہ
روح بیچاری پریشان ہو جائے اور گھوڑا خود سر نہ ہو کہ روح کو گرا کر چلا جائے۔
تنکے کو بھی حقیر نہ سمجھو ورنہ وہ تمہاری آنکھ میں پڑ جائے گا۔
اگر تمہیں پتا چل جائے کہ تمہارا رزق اللہ کے پاس ہے،
تو پھر رزق کی تلاش نہ کرو بلکہ اللہ کی تلاش کرو جس کے پاس تمہارا رزق ہے۔
جہاں دو راستے ہوتے ہیں وہاں سوچ آتی ہے جس آدمی کے پاس راستہ ہی ایک ہو،
اسے سوچنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔
دشمن گھر میں آجائے یا دوست گھر سے چلا جائے، دونوں حالتوں میں مصیبت ہے۔
مغربی تہذیب اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی ہے،
ان کی کوئی لذت ایسی نہیں رہ گئی جو گناہ نہ ہو۔
کبھی بادشاہ بننے کی دعا نہ کرو،
ورنہ دعا کے ذریعے حاصل ہوجانے والی بادشاہی کے اندر اگر کوئی ظلم اور تلخی ہوئی تو اس کے ذمہ دار تم ہو گے۔
ایک آدمی دلیری سے سچ بات کرنے لگ جائے تو باقیوں کا چھپا ہوا سچ ظاہر ہو جائے گا۔
دین سے اس طرح محبت کرو، جس طرح دنیا دار دنیا سے محبت کرتا ہے۔
بہت سارے سوالات سے نکل کر انسان جب ایک سوال میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا سفر واضح ہو جاتا ہے۔
جب تک کوئی آپ سے نہ پوچھے مبلغ نہ بنو۔
جن لوگوں نے اللہ کو یاد رکھا لوگوں نے ان کی زندگی کے بعد بھی ان کو یاد رکھا۔
جس چیز کو ہم باعثِ عزت سمجھ رہے ہیں، اس کی موجودگی میں لوگ ذلیل ہیں۔
جب آپ اپنے ماضی کو حال پر فوقیت دیتے ہیں تو آپ مذہبی آدمی بن جاتے ہیں،
جب مستقبل کو فوقیت دیتے ہیں تو پھر سائنسی آدمی بن جاتے ہیں،
سائنس ماضی سے نجات پاتی ہے، جب کہ مذہب ماضی کی طرف رجوع کرتا ہے۔
جو تمہیں اچھا لگتا ہے، تم بھی اسے ضرور اچھے لگتے ہو۔
گناہ ہر وہ عمل ہے، جو تمہارے لیے نقصان دے ہے۔
جب تک یہ پتا نہ ہو کہ آرزو صحیح ہے یا غلط تو اس کا پورا نہ ہونا بری بات نہیں،
اچھی آرزو انعام ہے چاہے پوری نہ ہو۔
آج کل مفاد پرست کے پاس اپنے مفاد کا تحفظ سیاست کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
زندہ رہنا چاہو تو موت قیامت ہے، اور مرنا چاہو تو زندگی قیامت ہے۔
قائم ذات سے محبت کرو گے تو تم بھی قائم ہو جاؤ گے۔
غرور اس صفت کو کہتے ہیں، جو مٹ جائے یا مٹ سکے۔
اللہ کا جلوہ اگر طور کے درخت سے بول سکتا ہے،
تو کیسے ممکن ہے کہ انسان سے نہ بول سکے۔
جو شخص کہتا ہے میں کل خوش ہو جاؤں گا وہ کبھی خوش نہیں ہوگا۔
سخی تب سخاوت کر سکے گا جب سائل بھی موجود ہو۔
Aqwal e Zareen
گدا گر وہ ہوتا ہے، جو ہر روز ایک مقام پر ایک جیسی صدا لگاتا ہے۔
سورج کو نمایاں ہونے کے لئے تاریکی درکار ہے۔
جتنے عظیم لوگ تھے وہ غیر عظیم زمانوں میں آئے۔
جھوٹا آدمی اگر سچ بھی بولے تو وہ سچ بے اثر ہو جائے گا۔
خوراک تھوڑی کھائیں تو طاقت ملے گی،
وہی خوراک اگر زیادہ کھائیں تو طاقت چھن جائے گی۔
اگر علم عمل کا شاہد نہ ہو تو علم حجاب اکبر ہے۔
چھوٹی نیکی کو کبھی چھوٹی نیکی نہ سمجھنا اور چھوٹے گناہ کو کبھی چھوٹا نہ سمجھنا۔
بدی کا موقع ہو اور بدی نہ کرو تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔
پیسہ آتا ہے غرور دینے کے لیے، اور جاتا ہے مسکینی دے کر۔
شیطان اس لئے شیطان بنا کہ اس نے عبادت کو تو مانا لیکن معبود کو نہیں مانا۔
ہم خیال لوگ ہمسفر ہو جائیں تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔
بیٹا میرے بعد گھر میں ایسے رہنا،
جس طرح میری مو جودگی میں رہتے ہو۔
بولنے والی زبان سننے والے کان کی محتاج ہے۔
ضمیر کی آواز نہ تو ظاہری زبان سے دی جاتی ہے،
اور نہ ہی ان کانوں سے سنائی دے سکتی ہے۔
عجائباتِ دہر میں سب سے بڑا عجوبہ آنکھ ہے۔
انسان اپنا بہت کچھ بدل سکتا ہے حتی’ کہ
شکل بھی تبدیل کر سکتا ہے لیکن وہ فطرت نہیں بدل سکتا۔
Wasif Ali Wasif (R.A) (15 January 1929 – 18 January 1993) was a modern-era Pakistani saint recognised for his work as an educationist, writer, poet, reformer, and mystic intellectual. He was well-known for his distinct writing style. He used to compose brief bits of writing about love, life, fortune, fear, hope, expectancy, promise, prayer, happiness, and sadness, among other things. Many M Phil and PhD theses about his life and career have been written in Pakistani universities. In one of his theses, he is referred to as a Pakistani reformist. As a reformist, his work in arousing the nation is seen as a continuation of Iqbal’s.