Sagar Poetry in Urdu

Sagar Poetry

“Sagar” is a term in Urdu poetry that refers to the sea or ocean. Sagar poetry in Urdu is a genre that explores the vastness and depth of the sea, using it as a metaphor for the human experience. It is a genre that is characterized by its vivid imagery, emotional intensity, and philosophical themes.

One of the most famous sagar poems in Urdu is “Aik Aansoo” by Mirza Ghalib:

Born in 1928 in Ambala, India

On July 19, 1974, in Lahore, Pakistan, he died.

Burial site: Miani Sahib Graveyard, Lahore, Pakistan

دریا میں اک انسان آنسو تھا،
اس کی کہانی خود دریا کہانی ہے۔

تم بھی وہی ہو جو میں ہوں،
تمہیں بھی ہم وطن مانا تھا میں نے۔

سلسلہ فجر تک جا پہنچا اذانِ عشاء سے اے ساگر
ہم خیالِ یار میں بیٹھے وضو ہی کرتے رہے

قصہ محبت اب ہم سے نہ پوچھو ساگر
ہم محبت کی دنیا سے وفات پا چُکے ہیں

دنیا کا دستور ہی ایسا ہے ساگر
ساتھ وہاں تک مطلب جہاں تک

یہ حُسن یہ ناز و ادا یہ سادگی ان آنکھوں کی
واللہ غضب کر رہی ساگر آوارگی اُن آنکھوں کی

ہم نے جو پوچھا ساگر انداز محبت ہے کیسے
کھینچ کرہونٹ سے ہونٹ ملا دیے اور کہا ایسے

اب دوستی کر لی ہے تنہائی سے ساگر
اگر کوئی چھوڑ جائے گا تو غم نہیں

تمہارے ابُرو کی ایک جنبش نے ساگر کے رُخ کو موڑا
تمہاری خفگی نے جانِ راہب شرارےِ آتش فشاں کیے ہیں

دن تو کٹ جاتا ہے شہر کی رونق میں ساگر
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں شام ڈھل جانے کے بعد

دنیا تو سدا رہے گی ساگر
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر

ساگر کی بانہوں میں موجیں ہیں جتنی
ھم کو بھی تم سے محبت ہے اُتنی

مسکراہٹ تو دیکھیئے ہمارے چہرے کی ساگر
ہم دُکھ بھی کیسی ادا سے چُھپاتے ہیں

آپ نے دیکھے ہیں صرف مُسکراتے ہوئے چہرے ساگر
ان کے پیچھے جو درد چُھپے ہیں وہ آپ سے دیکھے نہیں جائیں گے

مُسکرانے کے زمانے گُزر گئے ساگر
اِک شخص دفنا گیا میرے شوق بھی میرے ذوق بھی

وہ مل جائے مجھے تو یوں سمجھو گی ساگر
جنت کا اعلان ہو کسی گناہ گار کے لیے

یہ سنگیں حصاروں کی اونچی فصلیں
یہ دریا یہ ساگر یہ صحرا یہ جھیلیں
یہی ہے نشیمن یہی آشیانے
عقابوں کے مسکن ہمارے ٹھکانے۔

تمہارا خط ملا جاناں
وہ جس میں تم نے پوچھا ہے
کہ اب حالات کیسے ہیں
میرے دن رات کیسے ہیں
مہربانی تمہاری ہے
کہ تم نے اس طرح مجھ سے
میرے حالات پوچھے ہیں
تمہیں سب کچھ بتا دوں گا
مجھے اتنا تو بتا دو
کہ کبھی ساگر کے کنارے پر
کسی مچھلی کو دیکھا ہے
کہ جس کو لہریں پانی کی
کنارے تک تو لاتی ہیں
مگر پھر چھوڑ جاتی ہیں
میرے حالات ایسے ہیں
میرے دن رات ایسے ہیں۔

وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے
جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پگھلیں گے
جب سُکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبَر جُھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *