Ishq Poetry in Urdu

Ishq Poetry in Urdu

محبت ” اور عشق سے بچ کے رہنا “صاحب”
محبت کا میم موت ہے اور عشق کا عین عذاب


لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمہاری طاق میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں نہ اور پھرو تو اچھا ہ

تجھ سے عشق جو ہو گیا اب خسارا کیسا
دریائے عشق میں جو اتر گئے اب کنارہ کیسا
اِک یار تیرے ہوگئے تو بس ہوگئے
روز کرنا اب نیا استخارہ کیسا

آنکھوں میں تیرے عشق کی مدھوشیاں لے کر
ہم تجھ کو سوچتے ہیں بڑی بے خودی کے ساتھ

کتابِ عشق کے کسی پنے پر
مجبوریوں کا ذکر نہیں ملا مجھ کو

اسے کہو اب میں سانس لینا چاہتا ہوں
میرے وجود سے وعدوں کی رسیاں کھول دے

سب نہیں ہوتے ہیں مجذوب نگاہوں والے
ہر کوئی عشق میں درویش نہیں بن جاتا

وفا کرنا بھی سیکھو عشق کی نگری میں
صرف دِل لگانے سے دِلوں میں گھر نہیں بنتے

تم چاہے کہانی سے میرا نام مٹا دو
مٹ کر بھی میرا نام ہی عنوان رہے گا۔

تین ہی تو مسئلے ہیں میرے “مرشد”
آپ، سے، عشق، شاعری، سگریٹ،،،،،

ہمیں کوئی پہچان نہ پایا قریب سے
کچھ اندھے تھے کچھ اندھیروں میں تھی

اترتا نہیں موت سے پہلے عشق ایسا بخار ہے سائیں

کدی مسات ملتان دا چکر لا
تیکوں عشق دے رول سکھاواں میں

کیوں تیرے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
موسم زرد میں اِک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

دنیا کے سامنے اکڑ کر چلنے والا لڑکا
اگر جُھک کر تمہاری پایل باندھے تو مانوں گی عشق ھے

عشق کو ساری سزائیں جچتی ہیں
عشق ضبط کمال کا رکھتا ہے

تیرا ہر لمحہ اس موسم میں بے حد پاس لگتا ہے
یہی وہ بات ہے جس سے دسمبر خاص لگتا ہے

میں جو خود کو سنجیدہ لکھتی ہوں
ایک شخص مجھے شرارتی کہتا ہے

اس ڈر سے کہ کٹ جائیں نہ بینائی کے ریشے
آنکھوں نے تیری راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا

اگر تو مل نہیں سکتا تو کچھ تدبیر ایسی ہو
میری آنکھوں سے تجھ کو عمر بھر دیکھا کرے کوئی

لفظ پھولوں کی طرح چُن کر تجھے دان کروں
تجھ پر جچتے ہیں سبھی نام محبت والے

عشق ہے تو ظاہر کر بنا کر چائے حاضر کر
ادرک ڈال یا ڈال الائچی،کوٹ کر محبت بھی شامل کر

خواب آنکھوں سے جدا ہوتے ہی مر جاؤں گی
آتشِ عشق میں بے باک اُتر جاؤں گی
عشق وہ کارِزیاں ہے کہ اَمر ہونے تک
خاک میں لپٹی پِھروں گی تو سُدھر جاؤں گی
سات رنگوں کی قَـسم تُو مرا رنگِ ہشتم
میں تیرے رنگ میں رنگتے ہی سنور جاؤں گی
جاکے بیٹھوں گی تری سِمت جھکائے نظریں
نہ میں بھٹکوں، نہ کسی اور کے در جاؤں گی۔

میرے چھوڑنے کی دیر تھی وہ مر گیا کسی اور پر

ہائے وہ شخص جس کی نسبت سے
ایسے ویسے بھی اچھے لگتے ہیں

حق بہ جانب ہیں آپ اترائیں
ہم کہاں ہر کسی پہ مرتے ہیں

ساز میں کھوئے رہے سوز نہ سمجھا کوئی
درد کی ٹِیس تھی، پازیب کی چَھم سے آگے

وہ معجزے سکُوت کے ہم کو بھی عطا کر
ہم حالِ دل سنائیں ، مگر گفتگو نہ ہو

شاعری اس کے لب پہ سجتی ہے
جس کی آنکھوں میں عشق روتا ہے

ہوۓ بدنام مگر پھر بھی نہ سدھر پائے ہم
پھر وہی شاعری، پھر وہی جاگنا، پھر وہی عشق، پھر وہی تم

کاش تو میری آنکھوں کا آنسو بن جائے
میں رُونا چھوڑ دوں تجھے کھونے کے ڈر سے

تمہیں اپنی آنکھوں میں نہیں رکھا کہیں آنسوؤں کے ساتھ بہہ نہ جاؤ
تمہیں اپنے دل میں رکھا ہے تاکہ ہر دھڑکن کے ساتھ یاد آؤ

انتظار یار بھی ———- لطف کمال ہے
آنکھیں کتاب پر اور سوچیں جناب پر

اس نے کہا شاعری ادھوری ہے تیری
میں نے کہا جس کا عشق ادھورا ہو وہ الفاظ کہاں سے لائے

آنکھیں جو اٹھائے تو محبت کا گُماں ہو
نظروں کو جھکائے تو شکایت سی لگے ہے

میرے تن سے مہکتی ہے تیری خوشبو
اسے اپنی سانسوں سے ہٹاؤں کیسے
تیرے عشق کا سجدہ کیا ہے میں نے
تیری صورت سے نظریں ہٹاوں کیسے

دو قسم کے لوگوں کو عشق بڑا شدید ہوتا ہے
ایک وہ جو دوسروں کی محبت کا مذاق اڑاتے ہیں دوسرے وہ جو اس کو سرے سے مانتے ہی نہیں

توڑیں گے غرور عشق کا اور اس طرح سدھر جائیں گے
محبت کھڑی ہوگی راستے میں ہم سامنے سے گزر جائیں گے

ہم نے ہاتھ پھیلا کر صرف عشق مانگا تھا
آپ نے تو ہاتھ چوم کر جان نکال دی

ہم نہیں کرتے توبہ عشق سے عشق تو ہمارا پیشہ ہے
وہ عشق ہی کیا جس میں یار بے وفا نہ ہو

یہ عشق محبت کچھ بھی نہیں ہوتا
جو شخص آج تیرا ہے کل کسی اور کا ہو گا

اندازِ عشق بھی کیا خوب تھا اس بے وفا کا
ہزاروں درد دے گیا ہمیں جان کہتے کہتے

خوشیاں تو کب کی روٹھ چکی ہیں
کاش کہ غموں کو بھی نظر لگ جائے جناب

چُھپی ہوئی حقیقت بتا رہے ہیں جناب
نظر کے شرک والوں سے محبت نفرت کرتی ہے

عیاں کر دی ہر ایک پر ہم نے اپنی داستانِ دل
یہ کس کس سے چھپانی تھی نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

یہ جسم ہے تو کیا
یہ روح کا لباس ہے
یہ درد ہے تو کیا
یہ عشق کی تلاش ہے۔

وہ عشق میں ہم سے انتہا چاہتا ہے
رکھ کے ساتھ رقیب ہم سے وفا چاہتا ہے۔

سو بار اک گلی میں مجھے لے گیا یہ وہم
کھڑکی سے کوئی مصلحتاً جھانکتا نہ ہو۔

میرے پاس تھی میری تشنگی ، تیرے پاس جامِ شراب تھا
تیرا پیار تھا میری شاعری ، تیرا عشق میری کتاب تھا۔

پوچھو نہ کچھ جو حال ہمارا ہے اِن دنوں
یہ دل کسی کے عشق کا مارا ہے ان دنوں
اے دوست تجھ کو دیکھا تو ایسا لگا مجھے
اُترا ہوا زمیں پہ ستارہ ہے ان دنوں
شاید مِری تلاش میں ہو موسمِ بہار
مجھ کو یہی ہوا کا اشارہ ہے ان دنوں
نیند آئے بھی تو رہتا ہے آنکھوں سے دور دور
وہ خواب جس پہ اپنا گزارہ ہے ان دنوں
یہ بھی کسی کے قرب کا اعجاز ہے میاں
مجھ کو مرا وجود گوارا ہے ہے ان دنوں
اشرف اُڑوں نہ کیسے میں اونچی ہواؤں میں
میرا کسی کے دل پہ اجارہ ہے اِن دنوں

Jab_bhi_aata_hy_mera_naam_tery_naam_ke_saath
Jaany_kyon_log_mery_naam_se jal jaty hain

جب بھی آ تا ہے میرا نام تیرے نام کے سا_تھ
جانے کیوں لو گ میرے نام سے جل جا تے ہیں

Mohabbat karny waly kam na honge
Teri mahfil mein lekin ham na honge

مُحبت کر نے والے کم نہ ہو نگے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہو نگے

Bhuly hain rafta rafta unhen muddaton mein ham
Qiston mein khud_kushi ka maza ham se puchiye

بُھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مُدتوں میں ہم
قسطوں میں خود خو شی کا مزہ ہم سے پوچھیئے

Tum se bichad kar zinda hain
Jaan bahot sharminda hain

تُم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شر مندہ ہیں

Kitni lambi khamoshi se guzra hon
Un se kitna kuch kahny ki koshish ki

کِتنی لمبی خا مُوشی سے گُزرا ہوں
ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی

Jis ki aankhon mein kati thiin sadiyan
Us ne sadiyon ki judai di hay

جس کی آنکھوں میں کاٹی تھیں صدیاں
اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top