رات کا وقت تھا اور گاؤں میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہوا میں ہلکی سی سردی اور پراسراریت کا احساس تھا۔ حسن، جو ایک نوجوان اور تجسس سے بھرپور تھا، اپنے دوستوں کے ساتھ گاؤں کے پرانے محل کے قریب آیا۔ یہ محل کئی سالوں سے خالی تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں عجیب و غریب واقعات ہوتے ہیں۔
حسن کے دوست، راشد اور ندیم، بھی اس مہم جوئی میں شریک تھے۔ محل کے بڑے، خستہ حال دروازے کو کھولتے وقت، وہ تینوں ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے۔ محل کے اندر ہر طرف دھول اور مکڑیوں کے جالے تھے۔ اچانک، حسن کی نظر ایک بند کمرے کے دروازے پر پڑی جس پر ایک عجیب نشان بنا ہوا تھا۔
راشد نے کہا، “یہ دروازہ کبھی کھلا ہوا نہیں دیکھا۔ شاید اس کے پیچھے کچھ چھپا ہوا ہے۔” ندیم نے لالٹین اٹھائی اور روشنی ڈال کر قریب جا کر دیکھا۔ دروازے پر لکھا تھا:
“جو اس راز کو کھولے گا، اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوگا۔”
حسن نے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ راشد اور ندیم نے اسے روکا، مگر حسن نے کہا، “اگر ہم آج نہیں جان پائے کہ اس محل میں کیا چھپا ہوا ہے، تو ہمارا تجسس کبھی ختم نہیں ہوگا۔”
دروازہ کھولنے کے لیے حسن نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا اوزار نکالا اور قفل توڑ دیا۔ دروازہ کھلتے ہی سرد ہوا کا جھونکا آیا اور ان تینوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
کمرے کے اندر ایک پرانا لکڑی کا صندوق تھا۔ حسن نے صندوق کا ڈھکنا اٹھایا اور اندر ایک قدیم کتاب دیکھی۔ کتاب پر سیاہ جلد اور سنہری تحریر تھی، مگر وہ زبان کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
اچانک، کتاب خودبخود کھل گئی اور کمرے میں ایک گونجدار آواز گونجی:
“تم نے اس کمرے کا راز کھولا، اب تمہیں اس کا نتیجہ بھگتنا ہوگا!”
کمرے کی روشنی مدھم ہونے لگی اور ایک پراسرار سایہ نمودار ہوا۔ وہ سایہ تینوں کو گھورتا ہوا بولا، “یہ کتاب میرے عذاب کی کہانی ہے۔ اگر تم اسے یہاں سے لے کر گئے، تو تمہاری زندگی کبھی معمول پر نہیں آئے گی۔”
ندیم نے خوف سے کہا، “ہمیں یہاں سے فوراً نکلنا چاہیے!” مگر حسن، جو ابھی تک حیرت میں تھا، کتاب کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔
حسن نے کہا، “یہ کتاب ہمیں سچائی تک پہنچا سکتی ہے۔” مگر راشد نے اس کا بازو پکڑا اور کہا، “یہ کوئی کہانی نہیں، یہ خطرناک حقیقت ہے۔” وہ تینوں فوراً وہاں سے بھاگے اور دروازے کو بند کر دیا۔
گاؤں واپس آ کر حسن نے وہ کتاب گاؤں کے بزرگوں کو دکھائی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب صدیوں پرانی ہے اور اسے کھولنے کی سزا موت ہے۔ حسن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے وہ کتاب محل میں واپس رکھنے کا فیصلہ کیا۔
آج بھی وہ محل ویران ہے اور گاؤں کے لوگ رات کو اس کے قریب جانے سے ڈرتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کتاب کا اصل راز کیا تھا، مگر جو بھی اسے کھولے گا، شاید وہ کبھی اسے بیان نہ کر سکے۔
بعض رازوں کو راز ہی رہنے دینا بہتر ہے۔ تجسس کبھی کبھی ہمیں ایسے مقام پر لے جاتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔