ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی، رہتا تھا ایک لڑکا جس کا نام عادل تھا۔ عادل کا خواب تھا کہ وہ ایک دن بڑا لکھاری بنے گا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے دل جیت لے گا۔ لیکن گاؤں میں تعلیم کے مواقع کم تھے، اور عادل کے والدین کھیتی باڑی میں مصروف رہتے تھے۔
عادل دن بھر کھیتوں میں کام کرنے کے بعد رات کو اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر پرانے کاغذوں پر کہانیاں لکھا کرتا۔ اس کے پاس نہ تو اچھے کاغذ تھے اور نہ ہی کوئی کتاب، مگر اس کی آنکھوں میں خواب کی چمک تھی۔
خواب کی ابتدا
ایک دن گاؤں میں ایک استاد صاحب آئے، جو شہر سے تھے۔ وہ گاؤں کے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔ عادل نے موقع کو غنیمت جانا اور استاد صاحب کے پاس جا کر اپنی کہانیوں کا ذکر کیا۔ استاد صاحب نے عادل کی کہانی پڑھی اور اس کی تحریر کی تعریف کی۔
استاد صاحب نے کہا، “عادل، تمہارے اندر ایک خاص بات ہے۔ لیکن اگر تم اس کو نکھارنا چاہتے ہو تو تمہیں سخت محنت کرنی ہوگی۔”
مشکلات کا سامنا
عادل نے استاد صاحب کی بات کو دل پر لیا اور دن رات محنت شروع کر دی۔ مگر راستہ آسان نہ تھا۔ گاؤں کے لوگ عادل کو مذاق کا نشانہ بناتے اور کہتے، “کھیتی باڑی کرو، لکھنا پڑھنا ہمارے گاؤں کے لیے نہیں۔”
عادل نے ان کی باتوں کو نظر انداز کیا اور اپنے خواب کے پیچھے لگا رہا۔ استاد صاحب نے اسے پرانے ناول اور کہانیاں دیں تاکہ وہ مزید سیکھ سکے۔
پہلا موقع
ایک دن استاد صاحب نے عادل کو شہر لے جانے کی پیشکش کی تاکہ وہ اپنی کہانیاں ایک ادبی مقابلے میں پیش کر سکے۔ عادل کے والدین کو یہ فیصلہ مشکل لگا، مگر استاد صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ عادل کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
عادل نے شہر جا کر اپنی کہانی مقابلے میں پیش کی۔ اس کی کہانی “ایک خواب، ایک حقیقت” نے سب کا دل جیت لیا۔ ججوں نے کہا، “یہ کہانی سادگی اور جذبے کا حسین امتزاج ہے۔”
خواب کی حقیقت
عادل کی کہانی نے پہلا انعام جیتا۔ اس کے بعد عادل کو کئی ادبی اداروں سے پیشکشیں آنے لگیں۔ وہ گاؤں کا وہ لڑکا جو کھیتوں میں کہانیاں سوچتا تھا، اب ملک کا مشہور لکھاری بن چکا تھا۔
عادل نے کبھی اپنے گاؤں کو نہیں بھلایا۔ وہ واپس آیا اور ایک لائبریری قائم کی تاکہ گاؤں کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔
سبق
عادل کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر دل میں جذبہ اور ارادہ ہو تو کوئی خواب ناممکن نہیں۔ مشکلات آئیں گی، لوگ مذاق اڑائیں گے، مگر کامیابی انہی کو ملتی ہے جو ہار نہیں مانتے۔
آخر میں عادل نے ثابت کیا کہ خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔